Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
1 - 1581
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کتابُ النّکاح

(نکاح کا بیان)
مسئلہ ۱: جس شادی میں رقص اور باجا وغیرہ ممنوعات شرعیہ ہوں وہاں نکاح ہوجاتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: اس میں شک نہیں کہ یہ ناچ اور اکثر باجے شرعاً حرام ہیں اور ان کے دیکھنے سننے کا مرتکب فاسق وگنہگار، مگر کفر نہیں کہ نکاح ہی نہ ہو، شرع مطہر میں نکاح صرف اس سے ہوجاتا ہے کہ مرد وزن ایجاب وقبول کریں اور دو گواہ سُنتے سمجھتے ہوں، باقی اس کا کسی ممنوع شرعی پر مشتمل نہ ہونا شرط نہیں۔ شیطان کے طرق اغوا سے ایک بدتر طریقہ یہ بھی ہے کہ آدمی کو حسنات کے حیلہ سے ہلاک کرتا ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عمدہ تمغائے مسلمانی ہے۔ اس نیک کام میں بہت لوگ حدود خداوندی کا خیال نہیں رکھتے اور تشدد وتعصب کو یہاں تک نباہتے ہیں کہ ان کا گناہ ان جاہلوں کے گناہ سے بدر جہا زائد ہوجاتا ہے جن کے لیے یہ ناصح مشفق بنے تھے، اور یہ بلاحضراتِ وہابیہ میں بہت ہے ذرا ذراسی بات کو کفر، شرک، بدعتِ ضلالت مخل اصل ایمان کہہ دیتے ہیں اور مطلق پاس ولحاظ اسلام ومسلمین دل میں نہیں لاتے۔ اسی طرح یہ قائل بھی اور وں کو ناچ گانے سے روکتاتھا اور خود اس سے اشد گناہ یعنی شریعت مطہرہ پر افتراء کیا معہذا اس پر لازم کہ اہل ہند اکثر عوام مسلمین مرد وزن کو معاذاللہ زانی وزانیہ اور ان کی اوالاد کو ولدالزنا ٹھہرائے حالانکہ حق سبحٰنہ وتعالٰی فرماتا ہے:
یَعِظُکُمُ اﷲ اَنْ تَعُوْدُوْ الِمِثْلِہٖ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ۱؎
اللہ تعالٰی تمھیں دوبارہ کبھی اس طرح کرنے سے منع فرماتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو۔ (ت)
(۱؎ القرآن       ۲۴/۱۷)
غرض امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بھی ایک حد مقرر ہے کہ اس سے تجاوز آدمی کو خود ترک معروف وارتکابِ منکر میں مبتلا کردیتا ہے۔
وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ ۲؎
جس نے حدود سے تجاو زکیا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ (ت)
(۲؎ القرآن                    ۶۵/۱)
ہاں اگر دُولھا دلہن میں سے کسی کایہ عقیدہ ومذہب  ہوکہ رنڈیوں کا یہ ناچ حلا ل ومباح ہے تو وہاں اس حکم کی گنجائش ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۲: از شہر کہنہ ۱۲ صفر المظفر ۱۳۰۷ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم ماقولہم رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اس صورت میں کہ شخص واحد کا متولی ہونا دونوں طرفوں نکاح کا جبکہ وہ اصیل ایک طرف سے ہو اور ولی دوسری طر ف سے ہو ساتھ ایسے ایجاب کے کہ قائم مقام قبول ہے۔  جیسے ابن العم نے سامنے گواہوں کے کہا "زوجت بنت عمی فلانۃ من نفسی" (جیسے چچا زاد کہے کہ میں نے اپنی چچازاد فلاں لڑکی کا اپنے ساتھ نکاح کیا۔ ت) جائز ونافذ ہے یا نہیں۔ اور یہ جواز ونفاذ باجماع علمائے حنفیہ رحمہم اللہ تعالٰی کے ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب: صورت مسئولہ میں اگر بنتِ عم نابالغہ ہے اور اس ابنِ عم سے اقرب اس کا کوئی ولی حاضر نہیں، یابالغہ ہے اور ابن عم نے خاص اپنے ساتھ نکاح کرنے کا اس سے اذن لے لیا ہے عام ازیں کہ اس کے لیے اور ولی اقرب ہو یا نہ ہو
"فان ھذہ وکالۃ ولاولایۃ مجبرۃ علی البالغۃ"
(تویہ وکالت ہے بالغہ پرجبری ولایت نہیں ہے۔ ت) ائمہ  ثلثہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے نزدیک یہ شخص کہ ایک جانب سے اصیل دوسری طرف سے ولی یا وکیل ہے طرفین نکاح کا متولی ہوسکتا ہے خلافا للامام زفر رحمہ اﷲ تعالٰی (امام زفر رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ت)
ہدایہ میں ہے:
یجوز لابن العم ان  یزوج بنت عمہ من نفسہ ۳؎۔
چچا زاد کو جائزہے کہ وہ چچازاد لڑکی کا اپنے ساتھ نکاح کرلے۔ (ت)
 (۳؎ الھدایۃ    فصل فی الوکالۃ بالنکاح    المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۲/۳۰۲)
فتح القدیر میں ہے:
الصغیرۃ بغیر اذنھا والبالغۃ باذنھا ۱؎
(صغیرہ کا نکاح بغیر اجازت اور بالغہ کا اجازت سے کرے۔ ت)
 (۱؎ فتح القدیر     فصل فی الوکالۃ بالنکاح     المکتبۃ النوریۃالرضویۃ سکھر    ۳/۱۹۶)
ہدایہ میں ہے:
وقال زفررحمہ اﷲ تعالٰی لایجوز، واذا اذنت المرأۃ للرجل ان یزوجھا من نفسہ فعقد بحضرۃ شاھدین جاز وقال زفروالشافعی رحمہما اﷲ تعالٰی لایجوز اھ۔ ۲؎
امام زفر رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا: یہ جائز نہیں۔ اور جب کسی عورت نے کسی مرد کو اپنے ساتھ نکاح کی اجازت دے دی تو اس مر دنے اگر دوگواہوں کی موجودگی میں اس سے نکاح کر لیا تو جائز ہے۔ اور امام زفر اور شافعی رحمہما اللہ تعالٰی نے فرمایا ناجائز ہے اھ (ت)
 (۲؎ الہدایۃ     فصل فی الوکالۃ بالنکاح    المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۲/۳۰۲)
اقول وبہ ظھر ان مافی ردالمحتار من نفاذخمس صور بالاتفاق وھی التی لافضولی فیھا من جانب، فانما اراد الاتفاق من ائمتنا الثلٰثۃ لاجمیع الائمۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیھم اجمعین۔
اقول (میں کہتا ہوں) اس سے واضح ہواکہ ان پانچ صورتوں کے بارے میں جن میں سے کسی جانب سے خود نکاح کرنے والافضولی نہ بنے، ردالمحتار کا ''بالاتفاق'' کہنا اس سے ان کی مراد صرف امام ابوحنیفہ،ا مام یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالٰی کاا تفاق ہے تمام ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالٰی کا اتفاق مراد نہیں ہے۔ (ت)
پس ان صورتوں میں اس کی تنہا عبارت قائم مقام عبارتین ایجاب وقبول ہوجائے گی اور عبارت دیگر کی حاجت نہ ہوگی۔
ہدایہ میں ہے:
اذا تولی طرفیہ فقولہ زوجت یتضمن الشطرین ولایحتاج الی القبول ۳؎۔
جب یہ شخص نکاح کی دونوں طرفوں کا ولی ہو تو اس کا یہ کہنا کہ میں نے نکاح کرلیا، ایجاب وقبول دونوں طرفوں کو شامل ہوگا اور اب قبول کہنے کی ضرورت نہیں، نکاح کرلیا یا نکاح کردیا کہے دونوں طرح جائز ہے۔ (ت)
 (۳؎ الہدایۃ     فصل فی الوکالۃ بالنکاح    المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۲/۳۰۲)
عام ازیں کہ یہ شخص وہ لفظ ادا کرے جن میں خود اصیل ہے مثلاً "تزوجت" یا وہ جس میں ولی یا وکیل ہے جیسے "زوجت" خلافا للامام شیخ الامام بکر خواھر زادہ فی الثانی (امام شیخ الاسلام بکر خواہر زادہ کا دوسرے یعنی ''نکاح کردیا'' کہنے میں خلاف ہے۔ ت)
Flag Counter